کیا اسلام کی اشاعت میں جبر واکراہ کا دخل ہے؟

 

 

از: مولانا اسرارالحق قاسمی

 

          موجودہ صدی میں مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر اور عالمی منظر نامے پران کی شبیہ خراب کرنے کے لیے جو منظم سازشیں ہورہی ہیں،ان ہی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ عیسائی مشنریز اور ایسی تما م قوتیں،جو اسلام کو ایک آفاقی اور تاریخ کے ہر دور اور ہر موڑ پرانسانیت کی راہ بری و راہ نمائی کرنے والے مذہب کے طورپر تسلیم نہیں کرتیں،وہ وقتاً فوقتاً اسلام کی بنیادی تعلیمات ،قرآن کریم، احادیث کے معتدبہ حصے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کواپنے اوچھے اوربکواس اشکالات و اعتراضات کا نشانہ بناتی رہتی ہیں،ان ہی اشکالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نعوذ باللہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دین کو پھیلانے اور عام کرنے کے لیے تلوار کا سہارا لیا اور ان کی زندگی میں جتنے لوگ بھی اسلام میں داخل ہوئے،وہ اپنی مرضی وخواہش سے نہیں؛بلکہ مسلمانوں کے زورِ شمشیر سے داخل ہوئے؛حالاں کہ تاریخی حقائق ان کی اس بیہودہ گوئی کاصاف اور صریح طورپر انکار کرتے ہیں،اگرآپ تبلیغِ اسلام کے ابتدائی ادوار اور پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی و مدنی زندگی کا منصفانہ مطالعہ کریں ،تو آپ کو صاف طورپر محسوس ہوگا کہ اسلام کی اشاعت کا آغاز اجنبیت اورکمزوری کے دور میں شروع ہوا اور پھر جب مسلمانوں نے مدینہ کی جانب ہجرت کی اور کفار و مشرکین اور یہودیوں کی متعددجماعتوں سے جو جنگیں ہوئیں،وہ سب انتہائی مجبوری میں ہوئیں،ورنہ ہمارے نبی کے جیسا صلح پسند اور امن جُو انسان روے زمین نے آج تک نہیں دیکھا،ہر موقعے پر آپ نے کُشت و خون اور جنگ و جدال کو ٹالنے کی کوشش کی؛مگر جب فریقِ مخالف مرنے مارنے پر ہی آمادہ نظر آیا،تبھی آپ نے اپنے اصحاب کو تلوار اٹھانے کی اجازت دی،پھر دورانِ جنگ بھی آپ نے اپنے مجاہدین کوانسانی اصول و اقدار کا حددرجہ پابند رکھا؛کیوں کہ آپ پوری انسانیت کے لیے رحمت و رافت بناکر بھیجے گئے تھے اور انسانی حرمت آپ کے نزدیک سب سے اعلیٰ و برتر تھی،عہدِ نبوی کی جنگوں میں جو جانوں کا اتلاف ہوا،اس سے بھی کوئی بھی عقلِ سلیم رکھنے والا انسان بہ آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسلام کی اشاعت میں زور زبردستی اور تیغ و تفنگ کا عمل دخل بالکل بھی نہیں تھا اور ایسا ہوبھی کیسے سکتا تھا،جبکہ اللہ تعالیٰ صاف طورپر”لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ“ اور” لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ“کا اعلان کر چکاتھا،اسلام کی اشاعت میں اَصالةًبے مثال سیرتِ نبوی اور آپ کے اصحاب کے کردار و عمل کا دخل رہا،انھوں نے جس ملک یا شہر کو فتح کیا،تو حسبِ روایت وہاں تباہی و تاراجی مچانے کی بجاے وہاں کے لوگوں کو امان دیا ،انھیں پُر امن طورپر اسلام کی دعوت دی اوراگر انھوں نے نہیں مانا ،تو بہت معمولی جزیے کے عوض انھیں ان کے دین پر چھوڑ دیا،عیسائیت اور استشراق کی جانب سے اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے والا یہ اعتراض؛بلکہ اتہام اور بہتان کتنا صریح جھوٹ ہے کہ خود کئی ایک مستشرقین نے اپنی کتابوں میں اس کی تردید کی ہے،معروف مستشرق عالم ”ٹامس کارلائل“ (۱۸۸۱- ۱۷۹۵/) نے اپنی کتاب On Heroes, Hero-wership,and the Heroic in Historyمیں جہاں نبی پاک کو تمام انبیا کے سردارکے طورپر مانا اور پیش کیا ہے، وہیں اس نے اسلام کی اشاعت میں تلوار کے عمل دخل کوقطعاً جھوٹ اوریاوہ گوئی قراردیتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ” یہ عقل میںآ نے والی بات ہی نہیں کہ ایک شخص،جو اپنی دعوت کے ابتدائی دنوں میں بالکل تن تنہا ہو،کوئی اس کو ماننے والا نہ ہو،وہ اکیلے پوری قوم اور جماعت کے خلاف تلوار لے کر اٹھ کھڑا ہو اور انھیں اپنے آپ کو منوانے پر مجبور کردے“ ۔(محمد المثل الأعلیٰ، تعریب: محمد السباعي، ص:۲۱، مکتبة النافذة، مصر۲۰۰۸ء)

          کارلائل کے علاوہ بھی متعدد مسیحی اور مستشرق علماء ،ادباء اور شعراء نے اس بات کا نہ صرف اعتراف کیا ہے کہ نبی پاک کی ذات سراپا رحمت تھی؛ بلکہ انھوں نے انصاف پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے اپنے طورپر دلائل کے ذریعے اس کو ثابت بھی کیاہے،گوکہ ان کے مقابلے میں سیرت نبوی اور اسلام کو اپنے سطحی اعتراضات و اشکالات کا نشانہ بنانے والوں کی تعداد زیادہ رہی اور انھوں نے پورے زور و شور سے اسلام کی شبیہ کو داغ دار کرنے کی مہم جاری رکھی اور آج کے ابلاغی وسائل کی بہتات اور بے پناہ کثرت کے دور میں وہ پہلے سے بھی زیادہ زور و شور سے اپنی یہ ناپاک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کیا دینِ مسیحی میں قتال کا تصور نہیں؟

          قبل اس کے کہ ہم اسلام پرعیسائی مشنریز کی جانب سے تشدد پسندی و انتہا پسندی کے الزامات کا تحقیقی جواب دیں ،مناسب سمجھتے ہیں کہ اس خیال اور عام طورپر پھیلے ہوئے تصور کی حقیقت واضح کردی جائے کہ مسیحیت مطلقاً جنگ و جدال اور قتال کا انکار کرکرتی ہے،عیسائیوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ انجیلِ متیٰ میں حضرت عیسیٰ کی جانب جو یہ قول منسوب ہے کہ”تم یہ مت سمجھوکہ میں زمین میں صلح و سلامتی قائم کرنے کے لیے آیا ہوں؛بلکہ میں تو تلوار لے کر آیا ہوں، میں اس لیے آیاہوں کہ انسان کو اس کے باپ کے خلاف کھڑاکردوں،بیٹی کو اس کی ماں کے خلاف اورچوپایوں کوچرواہوں کے خلاف،انسان کے دشمن اس کے گھر والے ہی ہوتے ہیں،جو شخص بھی اپنی ماں یا باپ سے مجھ سے زیادہ محبت کرے،تووہ مجھ سے دور رہے،جو شخص اپنے بیٹے یا بیٹی سے مجھ سے زیادہ محبت کرے،وہ بھی مجھ سے دور رہے،جو شخص اپنی صلیب نہ لے اور میری اتباع نہ کرے وہ مجھ سے دور رہے،جس نے زندگی کو پالیا(یعنی اپنے لیے اسے گزاردیا)اس نے دراصل اپنی زندگی کو گنوادیا اور جس نے میری خاطر اپنی زندگی کو گنوادی،توگویااس نے اپنی زندگی کے مقاصد کو پالیا“۔(باب:۱۰،آیت:۳۵)اس کا آخر ہم کیا مطلب نکالیں؟ہم نام نہاد عیسائیت کے علم برداروں کے قول کومانیں اور انجیل کی تکذیب کریں یا ان کو جھوٹا سمجھیں اورانجیل کے بیان کو صحیح اور سچ مانیں؟

یہودیت اور تشدد پسندی

          جہاں تک بات توریت کی ہے،تو اس کے اندر تو ابھی بھی بے شمار ایسے مقامات ہیں،جہاں جنگ و جدال اور قتال کی مشروعیت کی بات کی گئی ہے،مزیدیہ کہ دینِ موسوی کے حوالے سے جو شدت پسندی کی باتیں عام طورپر مشہورہیں اورواقعتاً بھی اس شریعت میں جو کم سے کم گنجایش اور سہولت کے مواقع پائے جاتے تھے(گرچہ ان کی کچھ وجہیں بھی تھیں)اس سے بھی ہم اچھی طرح واقف ہیں اور ان دونوں معروف سماوی شریعتوں کے خلاف اسلام نے جنگ اور قتال کے جو اصول متعین کیے اور ان پر جس اہتمام کے ساتھ خود ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اور مجاہدینِ اسلام نے سختی کے ساتھ عمل کیا اور جس طرح سے قرنِ اول میں مسلمانوں میں انسانی اقدار کے تحفظ و تکریم کی تاب ناک مثالیں پیش کیں،وہ اپنے آپ میں لا زوال ہیں اور اس بات کا بَیِّنْ ثبوت کہ اسلام کی اشاعت میں تلواریا زور زبردستی کا ادنیٰ دخل بھی نہیں رہا۔

          ا س کے بر خلاف عیسائیت کے ماننے والوں کی پوری تاریخ بے قصور انسانوں کے خون سے گل نار ہے،ماضی میں رومیوں نے بے شمار انسانوں کو تہہِ تیغ کیا،متعددیورپی قوموں نے انسانی خون کو پانی کی طرح بہایا،گیارہویں، بارہویں صدی عیسوی میں جو سلسلہ وار جنگیں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی تھیں،وہ خود عیسائیوں نے ہی بھڑکائی تھیں،چپے چپے سے ان کی افواج نے جمع ہوکراسلامی مملکت و خلافت پر حملے کیے،مسلمانوں کو قتل کیااور اس اندوہناک انسانیت کش مہم کی پشت پر اعلانیہ طورپر ان کے مذہبی رہنما ،راہب اورپاپاوٴں کا ہاتھ رہا۔یہ وہ تاریخی حقائق ہیں،جن کا انکار نہ تو مسیحی علما کر سکتے ہیں اور ناہی مستشرقین۔

          پھربیسویں صدی میں جو پوری دنیامیں صلیبی حکومت قائم کرنے کے جنون میں دنیا کے طول و عرض پر حملے کیے گئے،وہ سب بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہی ہیں،تاریخ میں برطانیہ، روم، اٹلی، فرانس اورامریکی اتحادکے ترجمان لارڈلنبی کا وہ قول بھی محفوظ ہے،جس میں اس نے ۱۹۱۸/ میں پہلی عالمی جنگ کے اختتام اور بیت المقدس پر قبضے کے موقع پر کہا تھا کہ”صلیبی جنگوں کا اختتام تو اب ہواہے“اسی موقع پرفرانسیسی ترجمان نے دمشق میں اسلامی قائد سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبرکے پاس جاکر یہ کہا تھا کہ”صلاح الدین!ہم واپس آگئے“۔

          بوسینیا ،چیچنیا، ہرزے گوینا اورمتعددافریقی ملکوں میں جو مسلمانوں کی جان،مال اور عزت و آبرو پر بے تحاشا ڈاکے ڈالے گئے،وہ بھی صلیبیت کے ہی نام پر تھے۔

          حالاں کہ ان سب کے بر خلاف اسلام نے اپنے تمام تر تاریخی مراحل میں اپنی صاف شفاف اور روشن تعلیمات کے ذریعے انسانی قلوب کو مسخر کیا، عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات، جنگ و امن کے دوران دی جانے والی اس کی ہدایتیں،غلبہ اور فتح کے دوران اس کی انسانیت نوازی پر مبنی تعلیم اوراس کے مبنی برانصاف سیاسی نظام نے لوگوں کو ہر دور میں اپنی جانب مائل کیا اور وہ اس کی صداقت و حقانیت کے قائل ہوکر حلقہ بگوشِ اسلام ہوتے رہے،اسلامی قلم رو میں جو دوسرے مذاہب کو ماننے والی قومیں رہتی تھیں،انھیں پوری امان ملتی تھی،ایسی ،جیسی ان کے اپنے ہم مذہب بادشاہ بھی نہیں دیتے تھے۔

اسلامی دعوت کی تاریخ اور فرضیتِ جہادکے اسباب

          اسلام کے مزاج میں سلامتی اور صلح جوئی کا عنصر شامل ہے،توپھر اس نے جہاد کو فرض کیوں قراردیا؟یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب ہمیں اسلام کے بالکل ابتدائی دور،نبی پاک کی سیرتِ مبارکہ،خلفاے راشدین ،دیگر اصحاب و تابعین اور موجودہ انسانی تاریخ،سب کو سامنے رکھتے ہوئے تلاش کرنا ہوگا،ویسے یہ تو ایک واضح سچائی ہے کہ باوجودیکہ کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی؛لیکن آج بھی ان کی تعداددنیا کی مجموعی آبادی کا زیادہ سے زیادہ۲۲/فیصدہے،یعنی سات ارب میں سے ایک ارب ستر کروڑ کے لگ بھگ،یہ بھی اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ مسلمانوں نے دین کی اشاعت میں زبردستی سے کام نہیں لیا؛کیوں کہ اگر وہ چاہتے،تو کم ازکم اپنی سیاست کے عروج کے زمانے میں تو ایسا کرہی سکتے تھے کہ دنیا بھر کی قوموں کو شمشیر کی نوک پر اسلام کے دائرے میں داخل کرلیتے؛مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

          (۱) بعثت کے بعد نبی پاک مکے میں تیرہ سال تک مقیم رہے،اس دوران آپ نے مکہ والوں کو توحید،رسالت اور قرآنی و اسلامی تعلیمات کو قبول کرنے کی دعوت دی،اس دوران مکہ کے بہت سے خوش نصیب افراد نے ایمان قبول بھی کیا،ان میں اشرافِ قوم بھی تھے اور کم درجے کے لوگ بھی؛البتہ نچلے درجے کے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی اور اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ نبی پاک کے پاس اتنا مال و دولت نہیں تھا کہ جسے لوگوں میں تقسیم کرکے انھیں اسلام کی طرف راغب کرتے،یہی وجہ ہے کہ اسلام لانے کی پاداش میں مسلمانوں اور ان میں سے بھی فقرا اور غربا اور کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کفار مکہ کی جانب سے سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا؛ لیکن چوں کہ انھوں نے کسی ظاہری لالچ یا خوف کی وجہ سے نہیں؛بلکہ دل کی رضا سے اسلام قبول کیا تھا؛اس لیے ان کے ایمان و یقین میں ذرابھی لغزش نہیں آئی؛ بلکہ انھیں جتنا زیادہ تکلیفوں سے گزاراگیا،ان کی قوتِ ایمانی میں اتنا زیادہ اضافہ ہوتا گیا،یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس دور میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ جس میں کسی شخص نے اسلام لانے کے بعد اس دین سے نفرت اور ناپسندیدگی کی وجہ سے رِدَّت اختیار کرلی ہویا اسے کفار و مشرکین کے مکرو فریب نے اپنے دین اور مذہب سے بیزار کردیا ہو؛بلکہ اس کے برخلاف ہمیں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں بعض مسلمانوں کو جب اسلام کے راستے میں سخت سے سخت عذاب دیاگیا،انھیں آگ میں ڈالاگیا یا ننگی جلتی ہوئی ریت پر کھلے بدن گھسیٹاگیا،تو انھیں ایک خاص قسم کی روحانی لذت،ٹھنڈک اور حلاوت محسوس ہوئی۔

          (۲) پھر جب کفارِ مکہ کی جانب سے اذیتوں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتاگیا اور مسلمانوں کے لیے مکے میں رہنانہایت ہی ناممکن ہوگیا،تو اللہ کے نبی نے بعض کمزور اور مصیبت زدہ مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی؛چنانچہ مسلمانوں کی ایک جماعت نے حبشے کی جانب ہجرت کرلی،پھر اس کے بعد ہجرتِ کبریٰ یعنی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کا واقعہ رونما ہوا، اس میں نبی پاک کے ساتھ تمام صحابہٴ کرام بھی شامل تھے،ان سبھوں نے محض اسلام کی حفاظت اور دین کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر اپنے گھر بار،آل اولاد اور اموال و جائیداد تک کو چھوڑ دینا گوارہ کرلیا،مدینے کے قیام کے دوران شروع کے ایک ڈیڑھ سال تک آپ وہاں کے لوگوں کو انتہائی پُر امن طریقے سے اور حکمت و موعظت کے ساتھ دین کی تبلیغ کرتے رہے،مدینے کے بہت سے لوگ اور قبیلے مدینے میں آپ کی آمد سے پہلے ہی مکہ جاکر اپنی مرضی اور دلی خوشی کے ساتھ اسلام قبول کرچکے تھے،مکہ کے تیرہ سال اور مدینہ کے تقریباً ڈیڑھ سالوں کے درمیان مسلمانوں کی جو حالت تھی،وہ سیرت و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے اور اسے جاننے اور پڑھنے کے بعد کوئی ناعقل ، متعصب اور بعض و حسد کے خطرناک مرض کا شکار شخص ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جتنے بھی لوگوں نے اسلام قبول کیا،وہ خارجی دباوٴ،ڈر،خوف یا لالچ کی وجہ سے کیا۔

          (۳) ہجرتِ مدینہ کے دوسرے سال کے اواخر یا نصف میں مسلمانوں کو جہاد اور کافروں کے خلاف مقاتلے کی اجازت مل گئی؛لیکن یہ جہاد اس لیے نہیں مشروع کیاگیا کہ اس کے ذریعے سے کافروں اور مشرکوں کو زبردستی دائرہٴ اسلام میں داخل کیا جائے؛بلکہ اللہ نے اسے اس لیے مشروع کیا کہ اس کے ذریعے سے دینِ اسلام کا دفاع کیاجائے،اس کو در پیش مشکلات اور عوائق و موانع کا مقابلہ کیا جائے اور اس کی اشاعت کی راہ میں حائل ہونے والوں کودور کیا جائے، مسلمانوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے،روئے زمین پر ایک خداکی پرستش اور عبادت کے تصور کو عام کیا جائے،ظلم و زیادتی،نا انصافی،بے امنی کا خاتمہ کیاجائے،پھراللہ تبارک و تعالیٰ نے قتال اور جہاد کا حکم دیتے وقت بھی مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ ایسے لوگوں پر دورانِ جنگ ہاتھ نہ اٹھائیں،جنھوں نے مذہب کے نام پر انھیں پریشان نہیں کیا اوران کی ایذا رسانیوں میں دوسروں کے ساتھ شریک نہ رہے،مسلمانوں کو حکم دیاگیا کہ دورانِ جنگ ایسے لوگوں سے اپنے ہاتھ کھینچے رکھیں،ان کے ساتھ انصاف اور حسنِ سلوک کا معاملہ کریں،ارشاد ہے:

          ”لاَ یَنْھَاکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوھُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْھِمْ إِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ، إِنَّمَا یَنْھَاکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ، وَظَاھَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْھُمْ، وَمَن یَتَوَلَّھُمْ فَأُوْلَئِکَ ھُمُ الظَّالِمُونَ“(الممتحنة: ۸-۹)

          اس آیتِ کریمہ سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا موقف یہ نہیں کہ اگر تم ہمارے ساتھ صلح کرو،توہم تمہارے ساتھ صلح پسندی کا معاملہ کریں گے؛بلکہ وہ کافروں کی جماعت کے ساتھ بھی رحم و کرم اور حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے،پھرقرآنِ کریم میں دین سے روکنے والے اور دین کے راستے میں روڑا اٹکانے والے کافروں کے ساتھ جنگ کرنے کا جو حکم دیاگیا،تو مطلقاً نہیں؛ بلکہ اس میں بھی حدود و قیودطے کردیے گئے اور حدِ اعتدال سے تجاوزکو ممنوع قراردیا گیا:

          ”وقاتلوا في سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا“(البقرة:۱۹۰)

          یہ اور ان کے علاوہ دیگر قرآنی آیتوں اور خدائی احکام کی روشنی میں نبی پاک نے اپنے اصحاب اور مجاہدین کو جنگ کے رہنما اصول بتائے، جن پر وہ ہمیشہ کاربند رہے،کمزوری و مغلوبیت کے زمانے میں بھی اور فتح اور غلبہ کے بعد بھی،انھوں نے کسی بھی موقع پر مفتوحین کے ساتھ روایتی فاتحین جیسا حیوانی سلوک نہیں کیا،انھوں نے کسی بھی جنگ میں عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا،انھوں نے کسی بھی شہر یا ملک کو فتح کرنے کے بعد شہریوں کے اموال و جاے داد اور عورتوں کو اپنی ملکیت نہیں بنایا اوران کی عصمت و عفت پر دست درازی نہیں کی؛ بلکہ اسلامی ضابطے کے مطابق اپنے سپہ سالار کی ہدایت پر عمل کیا،یہی وجہ ہے کہ ان کے ایسے کردار سے متاثر ہونے والوں اور پھر دامنِ اسلام سے وابستہ ہونے والوں میں مسلسل اضافہ ہوا اور اسلام اپنی آمدکے بعدبہت ہی کم دنوں میں دنیا بھر کے بیشتر خطوں میں پھیل گیا۔

          (۴) اسلام کی بنیادی تعلیمات (نصوصِ قرآن،احادیثِ کریمہ)اس تصور کو سرے سے مسترد کرتی ہیں کہ اس کی اشاعت میں کسی بھی قسم کی زور زبردستی کا دخل رہاہے،قرآن کریم میں متعددمقامات پر اس چیز کو بیان کیاگیا ہے،ارشادِ باری ہے:

          ”لا اکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغي، فمن یکفر بالطاغوت ویوٴمن باللہ فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لا انفصام لھا، واللہ سمیع علیم“ (البقرہ: ۲۵۶)

          ترجمہ: دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں،ہدایت اور گمراہی دونوں واضح ہیں،پس جو شخص باطل معبودوں کا انکار کرکے ایک خدا پر ایمان لے آیا،اس نے مضبوط چیز کو تھام لیاجوجدا ہونے والی نہیں ہے اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔

           اس آیتِ کریمہ کے سببِ نزول کوجان لینا بھی دل چسپی سے خالی نہیں،مفسرین نے بیان کیا ہے کہ انصار کے بنی سالم بن عوف کے ایک شخص کے پاس دو بیٹے تھے،جو بعثتِ نبوی سے قبل ہی نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے،ایک زمانے کے بعدوہ دونوں نصرانیوں کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ تجارت کی غرض سے آئے،ان کے والد(جو مسلمان ہوچکے تھے)نے جب انھیں دیکھا،تو ان کے پیچھے پڑ گئے اور کہنے لگے کہ جب تک تم دونوں مسلمان نہیں ہوجاتے، میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں،یہاں تک کہ یہ معاملہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلمتک پہنچ گیا، انصاری صحابینے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم میرے جسم کے ٹکڑے جہنم میں داخل ہوں اور میں دیکھتا رہوں؟(ایسا نہیں ہوسکتا) اسی موقع پرمندرجہٴ بالا آیتِ کریمہ نازل ہوئی،جس میں یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان اور کفر انسان کا ذاتی معاملہ ہے،کوئی کسی کو ایک مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا؛چنانچہ انھوں نے اپنے بیٹوں کا راستہ چھوڑ دیا۔

          امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے قول باری تعالیٰ”لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن“ کے بارے میں زید بن اسلم سے دریافت کیا،تو انھوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے مکے کی زندگی میں کسی کو مذہبِ اسلام اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا،اس کے باوجود کفار آپ کی جان کے درپے ہوگئے،تو ایسے موقع پر اللہ نے آپ کو ان سے لڑنے کی اجازت مرحمت فرمادی اور لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس میں داخل ہونے کے لیے کسی کو مجبور کریں۔

          دوسری جگہ ارشاد باری ہے:

          ”افأنت تکرہ الناس حتی یکونوا موٴمنین“(یونس:۹۹)

          ترجمہ:کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے کے لیے مجبور کریں گے؟(یعنی آپ ایسا نہیں کرسکتے)۔

          ایک اور جگہ فرمایا:

          ”فمن شاء فلیوٴمن، ومن شاء فلیکفر“(الکہف:۲۹)

          ترجمہ: جو چاہے وہ ایمان لائے اور جو چاہے وہ کفر کرے (یعنی اپنی مرضی سے جو شخص ایمان قبول کرے گا،اسے اس کا اجر ملے گا اور جوانکار و شرک کا ارتکاب کرے گا،وہ اس کے انجامِ بد سے دوچار ہوگا،اس معاملے میں کسی پر کسی قسم کا دباوٴ نہیں ڈالا جائے گا)

          اس آیت سے صریح طورپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر انسان کے اختیار اور رضامندی کا معاملہ ہے کہ جونسا مذہب چاہے ،اختیار کرے اور جسے چاہے ترک کردے،ہاں!بتقاضائے مصلحتِ انسانی و مقصدِ تخلیقِ انسانی اللہ تبارک و تعالیٰ کودینِ وحدانیت پسندیدہ ہے،وہ ایمان و اسلام کو پسند کرتا ہے اور اسی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے،جب کہ کفر سے روکتا ہے اور اس کے بدترین نتائج سے لوگوں کو باخبر کرتا ہے، قرآن کریم میں اس مفہوم کی آیتیں بکثرت پائی جاتی ہیں،اسلام کے ایک آخری پسندیدہ اور مکمل مذہب ہونے کی وجہ سے ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے مذہب کے معاملے میں انسانوں کو اختیار دینے کے باوجود فرمایا ہے:

          ”انا اعتدنا للظالمین ناراً احاط بھم سرادقھا“(الکہف:۲۹)

          ترجمہ: ہم نے کافروں کے لیے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے،جس کی طنابیں انھیں چاروں جانب سے گھیرلیں گی۔

          اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ کسی اورکو شریک ٹھہرانا اور اس کی وحدانیت کا انکار کرنا انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم ہے؛اس لیے قرآن میں جو مذہب کے حوالے سے عدمِ اکراہ اور تخییر کی بات آئی ہے،اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کفر و شرک کرنا جائز ہے یا اللہ تبارک و تعالیٰ ایسا کرنے والوں سے بھی راضی ہیں،ایسا ہر گزنہیں ہوسکتا،یہی وجہ ہے کہ علمائے تفسیر نے مذکورہ بالا آیتوں کو تہدید اور وعید پر مشتمل قرار دیا ہے، حتیٰ کہ بہت سے علمائے بلاغت تہدید ووعید کے مواقع پر بطور مثال کے ان ہی آیتوں کو پیش کرتے ہیں،پس معلوم ہوا کہ گو یہ آیتیں اپنی ظاہری نص کے اعتبار سے تخییر کے معنیٰ پر مشتمل ہیں؛لیکن یہ تخییر ایسی ہے کہ جس میں تہدید اور دھمکی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، ان آیتوں سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مذہب کے معاملے میں کسی پر کوئی جبر اور زبردستی نہیں کی جائے گی؛لیکن اس سے یہ ہر گزبھی نہ سمجھاجائے کہ اسلام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے تمام موجودہ مذاہب حق پر ہیں اور انسان جس مذہب پر بھی چاہے اعتقادرکھے اور اسی کے مطابق زندگی گزارے،ایسا ہر گزبھی نہیں،ایمان کو چھوڑکر کفر اختیار کرنے کی سزاتو ملنی ہی ہے۔

          احادیث میں بھی اس مفہوم کی روایتیں پائی جاتی ہیں،جن میں سے بعض کا ذکرکیا جاتا ہے:

          امام مسلم نے اپنی صحیح میں اپنی سند سے یہ روایت نقل کی ہے کہ”نبی پاک جب بھی کسی شخص کو کسی اسلامی فوج کا امیراور سپہ سالار بناتے ، تواسے تقویٰ اختیار کرنے اورساتھی مجاہدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کرتے،پھر فرماتے”اللہ کے راستے میں اللہ کانام لے کر لڑو، کافروں سے قتال کرو،لڑو اور دھوکہ و فریب نہ دو،لاشوں کا مثلہ نہ کرو،کسی نوزائیدہ بچے کو قتل نہ کرو اور جب بھی کسی مشرک قوم سے مقابلہ ہو،تو اسے تین باتوں کی دعوت دو،پھر وہ ان میں سے جس بات کوبھی قبول کرلے،تو تم اسے چھوڑدو،پھرتم اسے اسلام کی دعوت دو، پس اگر وہ اسلام قبول کرلے،توتم بھی انھیں قبول کرلو اور انھیں کسی قسم کا گزند نہ پہنچاوٴ اور اگر وہ لوگ انکار کریں،توان (کے تحفّظ کے لیے اُن) سے جزیہ مانگو،اگر وہ جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجائیں،توانھیں اپنے حال پر چھوڑدو اور اگر وہ جزیہ دینے کے لیے بھی آمادہ نہ ہوں،تو پھر تم اللہ کی نصرت و مدد طلب کرو اور ان سے قتال کرو“۔

          اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی نے مسلمانوں کو اسی وقت کافروں سے لڑنے کی اجازت دی،جب امن اور صلح کی کوئی راہ باقی نہ رہے اور قطعی طورپر یہ ثابت ہوجائے کہ کفار و مشرکین اپنے کبر و غرور اور خدابیزاری میں حد سے گزرے ہوئے ہیں،ہاں اس ذیل میں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جزیہ لوگوں کو اسلام پر مجبور کرنے کے لیے نہیں؛بلکہ یہ اسلامی مملکت و حکومت کے ذریعے ان کی خدمات،حفاظتی تدابیراور نگہہ داشت کے عوض ہے،اسلامی تاریخ میں اس کی ایک واضح ترین اور سب سے بڑی دلیل وہ واقعہ ہے،جسے علامہ بلاذری نے اپنی کتاب ”فتوح البلدان“میں نقل کیا ہے کہ جب ہرقل نے مسلمانوں سے مقابلے کے لیے اپنے لوگوں کو اکٹھا کیا اوریرموک کا واقعہ پیش آیا،تومسلمانوں نے حمص کے عیسائیوں سے لیا ہوا جزیہ واپس کردینے کا فیصلہ کیا اور ان سے کہا کہ ہم تمھاری حفاظت اور مددنہیں کر سکے؛ لہٰذا تم خوداپنا انتظام کرلو اور ہم تم سے لیاہوا مال واپس کیے دیتے ہیں،تو حمص والوں نے کہا کہ تمھاری ولایت اور انصاف ہمارے لیے ہمارے بادشاہ کے ظلم و جور سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے اور ہم سب تمھاری فوج اور سپہ سالارکے ساتھ مل کرہرقل کی فوج کا مقابلہ کریں گے،اسی طرح دوسرے شہروں کے ان یہود و نصاریٰ نے بھی یہی بات کہی،جن سے مسلمانوں نے صلح کر رکھی تھی،ان سب نے کہا کہ اگر روم کا بادشاہ اور اس کی فوج ہم پر غالب آجاتی ہے،تو ہمیں پھر پہلے جیسے برے دن ہی دیکھنے پڑیں گے اور جب تک ہم مسلمانوں کی حفاظت میں ہیں،اپنی اپنی زندگی جینے کے لیے آزاد ہیں۔

          اگر اس موقع پر کسی شخص کو اللہ کے نبی کے اس قول”أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوا لا الہ الا اللہ وَأنَّ محمدًا رَّسولُ اللہ“ کے حوالے سے کوئی اشکال ہو اور وہ کہے کہ اللہ کے نبی تو یہ فرمارہے ہیں کہ مجھے اس وقت تک کافروں سے لڑنے کا حکم دیاگیا ہے، جب تک وہ سب کے سب اسلام قبول نہ کرلیں،تو پھر یہ مصالحت اور کافروں کو اپنے مذہب پر برقرار رکھنے والی بات کیسے مان لی جائے ؟ تومحدثین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی پاک کا یہ قول ایک خاص پس منظر میں ہے اور اس سے مرادعرب کے بت پرست ہیں،رہی بات یہود و نصاریٰ جیسے اہلِ کتاب کی،تو ان کے ساتھ تو وہی معاملہ کیا جائے گا،جس کی صراحت گزشتہ حدیث میں ہوئی ہے،ویسے بہت سے محدثین،مثلاً امام مالک اور اوزاعی مشرکینِ عرب سے بھی اسی مذکورہ اصول کے مطابق عمل کرنے کے قائل ہیں،یعنی انھیں بھی اسلام پیش کیا جائے گا،نہ مانیں،تواسلامی قلم رو میں رہنے کے عوض اُن کی حفاظت کے مصارف کے طور پر ان سے جزیہ طلب کیا جائے گا اور اگروہ اس پر بھی راضی نہ ہوں،تو پھر ان سے قتال کیا جائے گا۔

          اگر ہم غور کریں تو امام مالک اور امام اوزاعی کا مسلک اسلامی تاریخ کے ابتدائی دورکے پس منظرمیں غلط بھی نہیں ہے؛کیوں کہ فتحِ مکہ تک جو لوگ کفرو شرک پر جمے ہوئے تھے،انھوں نے اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے کی تمام تر کوششیں کرلی تھیں،پھریہ کہ وہ لوگ تو نبی پاک کی صداقت و حقانیت کودوسرے تمام خطوں کے لوگوں سے زیادہ جانتے اور سمجھتے تھے؛کیوں کہ خود نبی پاک بھی عربی النسب اور ان ہی کے وطن اور قوم کے فرد تھے اور جو قرآن آپ پر اتاراگیاتھا،وہ بھی ان ہی کی زبان عربی میں اتارا گیاتھا،تو اس طرح حق تو ان کی نگاہوں کے سامنے بالکل واضح اور صاف تھا،اگر وہ اس کے باوجود ایمان نہیں لائے،تو اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ راہِ حق سے خود بھی سرگرداں تھے اور متبعینِ حق کوان کے راستے سے ہٹانے اور بھٹکانے پر بھی تلے ہوئے تھے۔مزید یہ کہ شرک اور کفر سراسر ایک باطل مذہب ہے اور باطل مذاہب کے پیروکاروں کا یہ شیوہ رہاہے کہ وہ حق کے خلاف پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہوتے اور حق پرستوں کو دبانے اور مٹانے کے لیے تمام تر تدبیریں بروئے کار لاتے ہیں،ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہاہے اور عصرِ حاضر میں بھی یہ سلسلہ پوری قوت کے ساتھ جاری و ساری ہے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج دنیا میں جو قومیں متمدن اور ترقی یافتہ سمجھی جاتی ہیں،وہ اپنی شان وشوکت کے تحفظ کی خاطر کیا کیا نہیں کر رہی ہیں،صرف اپنے مفادات کی خاطر آئے دن لاکھوں انسانوں کی جانیں لے رہی ہیں، ملکوں کو تاراج اور شہروں کو برباد اور نیست و نابود کر رہی ہیں؛لیکن چوں کہ دانش و بینش اور فکروعقل کے پیمانے بدل چکے ہیں؛اس لیے ان پر تو کوئی بھی اشکال نہیں کر تا، کیااپناسرِ پُرغروراونچارکھنے کے لیے ان کی یہ انسانیت کُش کارروائیاں حلال ہیں؛جب کہ یہی اگر کوئی اور قوم اپنے تحفظ کی خاطر کرتی ہے، تواس کے لیے حرام قراردیاجاتا ہے۔

          فتحِ مکہ کے بعد عرب کے بیشتر افراد اور قبائل اسلام کی حقانیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کے دامن سے وابستہ ہوچکے تھے،ایسے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم تھی،جو تاہنوزاپنے کفرپر اڑے ہوئے تھے،ایسے میں ان کے ساتھ جوبھی کیاگیا،وہ ظلم ہرگزنہیں تھا،وہ عین انصاف تھا اوراس سے اسلام کے خلاف افترا پردازی کرنے والوں کودلیل پکڑنے کاکوئی جوازنہیں ملتا ۔

          (۵) پھربہتان طرازوں کو اگر سیرتِ نبوی کا یہ پہلو سمجھ میں آجائے،جو سراسر عفوودرگذر اور رحمت و مسامحت پر مشتمل ہے،تو شاید ہی وہ اس کی جرأت کر سکیں،کیا آپ نے جنگی قیدیوں کوکبھی بھی اسلام لانے پر مجبور کیا؟کبھی نہیں؛بلکہ آپ نے انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا،مثال کے طورپر قبیلہٴ بنی حنیفہ کے سردار ثُمامہ بن اُثال حنفی کا واقعہ لے لیجیے،جنھیں مسلمانوں نے کسی سریہ میں گرفتار کرلیاتھا،وہ لوگ انھیں پہچانتے بھی نہیں تھے،صحابہٴ کرام انھیں پکڑ کر آپ کی خدمت میں لائے،جب آپ نے انھیں دیکھا،تو فوراً پہچان گئے کہ یہ تو اپنے قبیلے کے سردار ہیں، آپ نے انھیں ان کے حسبِ مقام عزت و احترام دیا،انھیں تین دن تک اپنے یہاں ٹھہرائے رکھا،ہر دن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ان سے خیریت پوچھتے،وہ جواباً عرض کرتے کہ اگر آپ کو مجھ سے مال چاہیے،تو میں دینے کو تیار ہوں اور اگر آپ مجھے قتل کردیتے ہیں، توایک (مجرم) خون والے شخص کا قتل کریں گے(یعنی آپ کو جنگ کے اصول کے مطابق اس کابھی اختیار ہے کہ آپ مجھے قتل کردیں) اوراگر آپ مجھ پر احسان کرتے ہیں،تو آپ ایک احسان شناس شخص پر احسان کریں گے(یعنی میں آپ کے احسان کا بدلہ چکادوں گا)، نبی پاک ان کو ان کے حال پر چھوڑدیتے،یہاں تک کہ نبی پاک اور مسلمانوں کی نرم خوئی اور حسنِ سلوک نے ثُمامہ کے دل کو نرم کردیا حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چھوڑ دیا؛چنانچہ وہ گئے،غسل کیا، پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوری خوش دلی اور اطمینانِ قلب کے ساتھ ایمان قبول کرلیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلمروئے زمین پر آپ سے زیادہ مبغوض میری نگاہوں میں کوئی نہیں تھا؛لیکن اب روئے زمین پر آپ سے زیادہ محبوب شخص میری نگاہوں میں کوئی نہیں ہے،بخدا!پہلے روئے زمین پر آپ کے لائے ہوئے مذہب سے زیادہ ناپسندیدہ میرے نزدیک کوئی مذہب نہیں تھا؛لیکن اب آپ کالایا ہوا دین اور مذہب میرے نزدیک سب سے پسندیدہ اور محبوب بن چکاہے،پہلے آپ کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ میرے لیے کوئی بھی شہر نہیں تھا؛مگر اب آپ کے شہر سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ بھی کوئی شہر نہیں“۔

          آپ کو ان کے اسلام لانے سے بڑی خوشی ہوئی؛کیوں کہ وہ قبیلے کے سردار تھے اور بعد میں ان کی اتباع میں ان کے قبیلے اور قوم کے بہت سے افراد نے اسلام قبول کرلیا،پھرنبی پاک کی مسامحت اور نرمی کایہ معاملہ صرف ثمامہ اور ان کی قوم تک ہی محدود نہیں رہ گیا؛بلکہ یہ آگے بڑھ کر ان لوگوں تک بھی پہنچ گیا،جو مسلمانوں کے روایتی اور پکے دشمن تھے،ہوایوں کہ جب ثمامہ اور ان کی قوم اسلام لے آئے اور اسلام لانے کے بعد یہ لوگ اپنے وطن واپس لوٹے،تو اولاً تو مکہ والوں نے انھیں بھی تنگ کرنا چاہا؛مگر چوں کہ یمامہ کے غلہ جات ہی سے ان کی گزربسر ہوتی تھی؛اس لیے انھوں نے اپنا ارادہ منسوخ کردیا؛لیکن ثمامہ نے مسلمانوں پر ان کے مظالم کا بدلہ لینے کی غرض سے ان کو غلہ نہ دینے کی قسم کھالی،اب مکہ والے زبردست مصیبت میں پھنس گئے،انھیں کوئی راہ اس مشکل سے نکلنے کی نظر نہ آتی تھی،بالآخر انھیں ایک امید گاہ نظرآئی اور وہ خواہی نخواہی آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں پہنچے،معاملہ بتایا اور سفارش کی درخواست کی۔ایسے موقعے پر دنیا کا عام قسم کا قائد،فاتح یا مصلح کیا کرتا،یہ کوئی بھی باعقل شخص سمجھ سکتا ہے؛لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے وہ نہیں کیا،آپ نے ثمامہ کو اپنی قسم پر برقراررہنے اور مکہ والوں کو ایمان لانے پر مجبور کرنے کونہیں کہا،نہ خود آپ نے اس وقت مکہ والوں کو اس قسم کی کوئی بات کہی؛بلکہ آپ نے ثمامہ کو خبر بھجوائی کہ مکہ والوں تک غلہ رسانی کا سابقہ نظام جاری رکھو،انسانی دنیا کاکوئی بھی مذہب کشادہ ظرفی اور انسانیت نوازی کی ایسی مثال پیش کرسکتاہے؟

          حضرت ثُمامہ نبی پاک کے ذاتی کردار اور مسلمانوں کے حسنِ سلوک اور اسلام کی حقانیت سے کس قدر متاثرہوئے تھے،اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپکی وفات کے بعد یمامہ میں مسیلمہ کذاب کا فتنہ ظہور پذیر ہوا اور بہت سے لوگ مرتد ہوگئے،توبھی ثمامہ اور ان کے متبعین نے ارتداد کی راہ نہیں اختیار کی،وہ پکڑپکڑکر مسیلمہ کے جھوٹے دعویِ نبوت پر ایمان لانے والوں کو سمجھاتے اورچیخ چیخ کر لوگوں کو کہتے”تم اس تاریکی سے بچو،جس میں روشنی کا شائبہ تک نہیں ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے یہ فتنہ اپنے متبعین کے لیے لعنت و محرومی کا سبب ہے اورنہ ماننے والوں کے لیے وقتی آزمایش ہے“؛لیکن جب ان کے اس اعلانِ عام کے باوجود مرتدین نے ان کی بات نہیں مانی،تو ثمامہ اپنے لوگوں کولے کر علاء بن حضرمی کے پاس چلے گئے اور پھر مسیلمہ اور اس کی جھوٹی نبوت کو ماننے والوں کی اچھی طرح خبر لی۔

           ایک اور واقعہ: جب آپ نے مکہ فتح کرلیا اور مسلمان اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاص نصرت اور مددکی بدولت مکے میں داخل ہوگئے،تووہاں پہنچنے کے بعد اولاً تو آپ نے عفوِعام کا اعلان کردیا، مگر کچھ ایسے لوگ تھے،جو ماضی میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی مخالفت اور ایذا رسانیوں میں بڑانام پیدا کیے ہوئے تھے اور انھوں نے مسلمانوں کو بھی طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائی تھیں،ایسے لوگوں کے بارے میں آپ نے اعلان یہ کیا کہ وہ یاتو مکہ چھوڑ کر نکل جائیں یا مسلمان انھیں جہاں بھی دیکھیں قتل کردیں،ان کے لیے ان کے سنگین جرائم کی وجہ سے معافی کی کوئی گنجایش نہیں تھی، ایسے ہی لوگوں میں سے ایک صفوان بن امیہ بھی تھے،جب ان کو معاملے کی بھنک لگی،تو وہ چھپ گئے؛ بلکہ انھوں نے گھبراہٹ کے عالم میں خود کشی کا ارادہ کرلیا،اتنے میں ان کے چچازاد بھائی عمیر بن وہب جمحی آپ کی خدمت میں آئے اور انھوں نے آپ سے کہا”اللہ کے رسول! صفوان اپنی قوم کا سردار ہے اور وہ اپنے آپ کو سمندر میں غرق کرکے ہلاک کرنے جا رہاہے،آپ اسے امان دے دیں“،نبی پاک نے ان کی یہ بات سن کر اپنا عمامہٴ مبارک اتارا اور ان کے سپرد کردیا،یہ اس بات کی علامت تھی کہ آپ نے صفوان کو امان دے دی،عمیر عمامہ لیے ہوئے سیدھے صفوان کے پاس پہنچے اور ان سے کہا”میرے ماں باپ تجھ پر وارے جائیں ،میں تمھارے پاس دنیا کے افضل ترین،سب سے زیادہ بااخلاق،سب سے زیادہ بردبار،سب سے بہتر شخص کے پاس سے آرہا ہوں، وہ تمھارے چچازاد ہیں،ان کی عزت تمھاری عزت ہوگی،ان کا شرف تمھارا شرف ہوگا اوران کی سلطنت تمھاری سلطنت ہوگی“صفوان نے ان کی بات سن کر کہا”نہیں مجھے اپنی جان کااندیشہ ہے“تو عمیر نے ان سے کہا”نہیں تمھیں کوئی خطرہ نہیں،آپ کی بردباری اورشرافتِ نفس کا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے،انھوں نے تمھیں امان بھی دی ہے اور اس کی علامت بھی میرے پاس بھجوائی ہے اور پھر انھوں نے صفوان کو نبی پاک کا عمامہ دکھلایا،تب جاکر صفوان کو یقین آیا؛مگر اب بھی کچھ نہ کچھ خلش باقی تھی؛چنانچہ نبی پاک کی خدمت میں پہنچنے کے بعد صفوان نے آپ سے پوچھا کہ عمیر یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے،تو آپ نے جواب دیا”اس کی بات درست ہے“پھرانھوں نے کہا”کیا آپ مجھے(مذہب کے سلسلے میں غور کرنے کے لیے) دو مہینے کی مہلت دیں گے؟“ توآپ نے ارشاد فرمایا”دونہیں،ہم تمھیں چار مہینوں کی مہلت دیتے ہیں“بالآخر صفوان نے بھی اسلام قبول کرلیا اورصحابہ کی مقدس جماعت میں وہ بھی شامل ہوگئے۔

          ان سارے واقعات کے پسِ منظر سے واقفیت کے بعد بھی کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا،تویہ اس کے دماغ کا فتور ہے اور کچھ بھی نہیں۔

          (۶) جولوگ بھی اسلام کے خلاف اس قسم کا پروپگنڈہ کرتے ہیں،خود وہ بھی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ اگر کسی آدمی سے کوئی بات زبردستی منوالی جائے،تو موقع ملتے ہی وہ شخص اس کا انکار کرنے لگتا ہے اور جب بھی اسے طاقت و قوت حاصل ہوتی ہے ،وہ فریقِ مقابل پر چڑھ دوڑتا ہے؛مگر ہمیں اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ جب نبی پاک کی رحلت ہوگئی،توبہت معمولی اور غیر معتدبہ جماعت کے علاوہ اکثرمسلمان اسی مذہب پر قائم رہے،جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم انھیں چھوڑ گئے تھے،یہی نہیں وہ سب کے سب اپنے نبی کی چھیڑی ہوئی تحریک کو لے کر آگے بڑھے اور ان کے نبی نے اپنے آخری سفرِ حج میں انھیں جس امانت کی ادائیگی پر مقررکیاتھا،اسے بخوبی اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس کے حق داروں تک پہنچایا،اس راہ میں انھیں مخالفین سے لڑنے اور جنگ کرنے کی نوبت آئی،تو اس سے بھی پیچھے نہ ہٹے اور بالآخر نبی کی وفات پر ایک صدی سے بھی کم عرصہ گزراتھاکہ انھوں نے اسلام کو دنیا بھر کے بیشتر خطوں تک پہنچادیا،اس مہم میں پیش آنے والی معرکہ آرائیوں میں ان عربوں نے جس دیدہ وری اورجان و تن سے بے پروائی کا مظاہرہ کیا،اسے دیکھتے ہوئے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے دین پر کسی کوبھی زبردستی ایمان لانے پر مجبور نہیں کیاتھا؛بلکہ انھوں نے انتہائی خوش دلی،اطمینانِ قلب اوربرضاورغبت اسلام قبول کیاتھا اور یہی وجہ تھی انھوں نے اس دین کے تحفظ کی خاطر آپ کی زندگی میں بڑی سے بڑی قربانیاں ہنستے کھیلتے دیں اور آپ کی وفات کے بعد بھی دنیا کے کسی بھی کافرومشرک اور وقت کے ظالم و جابربادشاہ کا سرِ پرغروران کے ایمانی جلال اور طاقت و قوت کے سامنے بلند ہونے کی جرأت نہ کرسکا۔

          (۷) پھر بعد کے زمانوں میں جب اپنی سیہ کاریوں اور عملی زوال کی وجہ سے مسلمانوں کی سیاسی برتری جاتی رہی اور دنیا بھر سے ان کی حکومت و سیادت چھین کر قدرت نے غیروں کے ہاتھوں میں تھمادی،تاتاریوں نے مسلمانوں کو تہہ وبالاکیا،صلیبیوں نے مکروسازش اور ظلم و جور کے کھیل کھیلے اور اب گزشتہ صدی سے سامراجیت دنیا پر اپنا نقشہ جمائے اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف مصروفِ تدبیر و منصوبہ بندی ہے اور مجموعی طورپر مسلمانوں کی کوئی ظاہری طاقت و قوت نہیں،نام نہاد اسلامی مملکتوں میں انتشار و خلفشار ہے،مسلم قیادت جاں بلب ہے،مسلمانوں کے علمی و سائنسی سوتے تقریباً خشک ہوچکے ہیں،عالمی معیشت سامراجی نظام کے علم برداروں کے ہاتھ میں ہے،عالمی سیاست کی گاڑی ان ہی کی بنائی ہوئی پٹری پر چل رہی ہے،دنیا بھر کو قرض فراہم کرنے والا عالمی بینک ان کے پاس ہے،تہذیب و ثقافت اور ترقی و عروج کے ہزار وسائل،نعرے،منزلیں اور سنگ ہاے میل خوش قسمتی سے ان کی پابوسی کر رہے ہیں؛مگر اس سب کے باوصف کوئی بتائے کہ کیا دنیا بھر کی مسلمان نسل اپنے دین کو چھوڑکردوسرے مذہب کی طرف رخ کر رہی ہے،یہ تو روزانہ ہورہاہے کہ دنیابھر کے ملکوں میں اسلام کا مطالعہ کرنے والوں،اس کے حقائق تک رسائی حاصل کرنے والوں اور اس کی خوبیوں سے متاثر ہوکر اس کے دامن میں پناہ لینے والوں کی تعداد میں لگاتار اور روزافزوں اضافہ ہورہاہے؛مگر کہیں سے ایک بھی ایسی خبرنہیں کہ مسلمان اپنے دین سے بیزار ہوکریا کسی دوسرے دین اور مذہب کی خوبی سے متاثر ہوکراس کی جانب مائل ہوگئے ہوں،یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے آباواجداد نے بھی دل کی گہرائی اور روح کے اطمینان کے ساتھ ایمان کو قبول کیا تھا اور وہ بھی اپنے اندر پائی جانے والی ہزارخامیوں کے باوجوداس مذہب کی صحت و صداقت کو دل و جان سے مانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔

          فی الوقت عالمی سطح کے تمام سرکاری و غیر سرکاری سروے کی رپورٹوں سے یہ پتاچل رہاہے کہ دنیا بھر میں اور خصوصاً ان ملکوں میں ، جہاں اسلام مخالف تحریکوں کو ہوادی جاتی؛بلکہ جہاں سے ایسی تحریکوں کے بدبودار چشمے اُبلتے ہیں،ان ملکوں میں مسلمانوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے، مغربی معاشرہ اور وہاں کے اصول و اقدار نے لوگوں کو اس قدرپریشان اور بے چین کر رکھا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف ہزار بہتان طرازیوں کے باوجود اس کی سچائیوں کا پوری غیر جانب داری کے ساتھ مطالعہ کرتے اور پھر اس کے دامن سے وابستہ ہوجاتے ہیں،ظاہر ہے کہ ان خطوں کے ایسے لوگوں کو تو کوئی بھی مسلم داعی یا مبلغ یا حکومت، اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر رہی۔

          پھرآج دنیا کے جو ممالک سب سے زیادہ مسلم آبادی والے شمار کیے جاتے ہیں،ان کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ وہاں کبھی مسلمانوں نے فوج کشی نہیں کی،ان مقامات پر اسلام کی اشاعت کا ذریعہ مسلم تاجروں،علماء کے اخلاق و عادات اوراسلام کی شفاف تعلیمات رہی ہیں،مثلاً انڈونیشیا، چین،افریقہ کے متعدد ممالک،یورپی ممالک اور امریکہ میں جو مسلمانوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے،تو کیا ان لوگوں کو تلوارکے زور پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جارہاہے؟اسلام پر انتہا پسندی و تشددکا الزام لگانے والوں کومغرب کے ان نو مسلموں سے تحقیق کرنی چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ انھوں نے اپنے سابق مذہب سے توبہ کرکے اسلام کو کیوں اپنالیا؟تب انھیں یقینا اصل حقیقت کا پتا لگ جائے گا۔

          ان تمام خطوں میں اسلام اپنی سماحت،اعتدال پسندی،اپنے فطری اورانسانی ذہن و فکر کو اپیل کرنے والے اصول کی وجہ سے پھیلاہے اور پھیل رہاہے،ہمیں روزانہ اسلام کے دائرے میں آنے والوں کی خبریں مل رہی ہیں،پھر جو لوگ دائرہٴ اسلام میں داخل ہورہے ہیں،وہ کبھی اس سے بیزاری یا دست برداری کا تصور بھی نہیں کرتے؛حالاں کہ عصرِ حاضر کے پشتینی مسلمان تبلیغِ دین اور اشاعتِ اسلام کے اپنے فریضے کو اداکرنے میں اس دل چسپی اورسنجیدگی کا مظاہرہ بھی نہیں کر رہے،جو ان سے اسلام چاہتا اور جس کی نبی پاک نے اپنے آخری دور میں انھیں تلقین کی تھی،جس قدراہمیت اور سرگرمی کے ساتھ عیسائی مشنریز اپنے نظریات و خیالات و عقائد کی تبلیغ و اشاعت میں جدوجہد صرف کر رہی ہیں،اگر مسلمان اس کا عشرِ عشیر بھی کریں،تو سال بہ سال اسلام لانے والوں کی تعداد نہ معلوم کس برق رفتاری اور کثرت کے ساتھ بڑھنے لگے ۔

          اسلام اور اس کی اشاعت کے حوالے سے یہ وہ حقائق ہیں،جنھیں کوئی بھی غیر جانب دارانسان تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا،اگر ان کے باوجود دشمنانِ اسلام جھوٹے پروپگنڈوں میں مصروف ہیں اور وہ دنیا میں اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے اور پیغمبرِ اسلام اور قرآن کی تعلیمات میں تحریف کرکے دنیا کو گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں،توایسے لوگوں کے بارے میں تو ہم وہی کہیں گے،جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی لاثانی معجزاتی کتاب قرآن کریم میں فرمایا ہے:

          ”کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاھِھِمْ، انْ یَقُوْلُوْنَ الّا کَذِبًا“․(الکہف:۵)

$ $ $

 

--------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12، جلد: 98 ‏، صفرالمظفر 1436 ہجری مطابق دسمبر 2014ء